Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

صوفیا اور متوازی دین؟

صوفیا اسلام سے ہٹ کر کسی متوازی دین کے قائل نہیں

ابرار احمد شاہی

6/19/20241 min read

صوفیا خاص طور پر محیی الدین ابن العربی پر یہ اعتراض کے یہ لوگ اسلام سے متوازی ایک دین کے قائل ہیں۔

––––––––––––––––––––––––––––––––––

شیخ اکبر محیی الدین ابن العربی کا فہم یا اصطلاحات اہل باطن کی فہم ہے اور یہ اہل ظاہر کی فہم سے جدا ہے۔ اہل باطن اہل تحقیق کی جماعت میں سب لوگوں کی فہم ایسی ہی ہے۔ چاہے حکیم ترمذی ہوں، سہل بن تستری ہوں، جنید بغدادی ہوں بایزیدبسطامی ہوں، ابو مدین ہوں یا پھر ابن العربی۔ لہذا یہ کہنا کہ ابن العربی کی فہم سب سے جدا ہے تو بات درست نہیں۔

ہاں ابن العربی یا اہل باطن کی فہم اہل ظاہر سے جدا ہے۔ اہل ظاہر میں آپ کے وہ تمام امام مفسرین، محدثین فقہا اور متکلمین آتے ہین جن کے پاس فہم کے صرف ظاہری ذرائع تھے اور جو باطنی علوم تک رسائی نہ پا سکے۔ ابن العربی نے تو اشاعرہ، ماتریدیہ اور معتزلہ سے بھی اختلاف کیا ہے۔ اور یہی دیگر صوفیا کا معاملہ ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اہل ظاہر ظاہر کو دین سمجھتے ہیں جبکہ اہل باطن کے ہاں اس میں وسعت ہے وہ اسے دین کی فہم قرار دیتے ہیں۔ اور یہ فہم ہر ایک کی الگ ہے۔ دو فقہاء یا دو متکلمین اپنے منہج کے اشتراک گے باعث بھی آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو صوفیا کا تو منہج ہی مختلف ہے۔

اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اہل ظاہر دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اہل باطن اس میں وسعت رکھتے ہیں، اس میں سختی اور ہٹ دھرمی سے اجتناب کرتے ہیں اسی لیے

اہل ظاہر انہیں دین سے دور قرار دینے لگتے ہیں جبکہ جسے اہل ظاہر دین سمجھ رہے ہوتے وہ بھی تو دین نہیں بلکہ ایک فہم ہی ہے۔ یہ صوفیا اہل ظاہر کو بھی غلط نہیں کہتے اور نہ اہل باطن کی تاویلات کا انکار کرتے ہیں کیونکہ معاملہ فی الحقیقت ایسا ہی ہے (ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے) جب معاملہ مقید نہیں تو مقید کرنے والا بالضرورت جاہل ہو گا۔

اب غامدی صاحب یا ان جیسے لوگ جب ابن العربی کو اسلام سے متوازن ایک الگ دین کہتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ جسے وہ اسلام کہہ رہے ہیں وہ قرآن و حدیث میں آئے احکام کے حوالے سے ان کی فہم ہے جن میں دو فقہا محدثین، متکلمین میں اختلاف ہے۔ جبکہ صوفی کی فہم اس سے جدا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ ہمارے پاس دین ہے اور صوفیا کے پاس متوازی دین ہے یہ قول ہی جہالت پر مبنی ہے اصل بات یہ ہے کہ اہل ظاہر ہوں یا اہل باطن ہر ایک کے پاس بس دین میں فہم ہے اور وہی اس کا دین ہے۔