Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

black and white bed linen

طريق و سالك

طریق اور سالک

طریقت کے سب راستے اللہ تک ہی جاتے ہیں لیکن ہر راستہ ہر ایک کے لیے نہیں ہوتا اور کوئی مرید اپنی مرضی سے کوئی راستہ نہیں چن سکتا بلکہ مرید کے لیے وہی راستہ ہے جو ازل سے اس کے لیے ثابت ہے۔

یہاں شیخ احمد محمد علی نے کنایتا اعیان ثابتہ کی بات کی ہے کہ آپ کی عین میں جو طریق ہے وہی آپ کا طریق ہے۔

یہاں محبت اور تعلق کی بات نہیں مثلا اگر کوئی شخص شیخ اکبر سے محبت اور عقیدت رکھتا ہے لیکن اس کی عین میں شیخ کا طریق نہیں تو وہ اس طریق پر نہیں وہ اسی طریق پر ہے جس پر وہ ہے۔

طریق اپنے سالکین کو منتخب کرتا ہے۔ میں ابرار احمد شاہی کہتا ہوں سالک اپنے طریق کو منتخب کرتا ہے۔ پر یہ انتخاب ازلی ہے یعنی آپ کی عین میں جو طریق ہے وہی آپ کا طریق ہے۔ اسے پہچانیں

جیسے دین کے تین درجات ہیں: اسلام ایمان اور احسان اسی طرح طریق کے بھی تین درجات ہیں اسلام (سر تسلیم خم کرنا) ایمان (اعتقاد کامل رکھنا) اور احسان (مقام تحقیق کا مشاہدہ)

لہذا ان تینوں مراتب کو پانا ضروری ہے

لیکن کچھ مریدین طریق میں شامل ہوتے ہیں اور ابتدائی درجے میں ہی ہوتے ہیں جیسے اعراب نے کہا ہم ایمان لائے تو اللہ نے کہا تم ایمان نہیں لائے بس یہ کہو کہ اسلام میں داخل ہوئے۔

یہ اہم نکتہ ہے اسے سمجہیں، میں نے پہلے یہ بیان نہیں کیا لیکن اب مجھے شیخ اکبر کی طرف سے یہ خیال آیا ہے کہ اسے بھی واضح کر دوں

لہذا دیکھیں آپ کس درجے میں ہیں ؟

سالك اور احوال

شیخ احمد محمد علی کہتے ہیں

احوال ايسا ميزان ہے جس میں ثبوت نہیں یہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ احوال کا تغیر کا یہ مطلب مان لیا جائے کہ طریقت (راہ سلوک) میں کوئی خرابی آ گئی ہے۔ بلکہ ہر مقام، ہر درجہ، ہر منزل کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔

احوال کی تبدیلی سب کے لیے ہے لیکن اعلیٰ مقام والے اہل اللہ کے لیے ان تبدیلیوں میں استحکام ہوتا ہے۔ استحکام کا مطلب ہے کہ ان پر ان تبدیلیوں کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، وہ ان میں متمکن ہوتے ہیں۔ جیسے ابو یزید بسطامی رضی اللہ عنہ نے کہا؛ "اب میری نہ صبح ہے نہ شام"، مطلب سب کچھ ان کے لئے مستحکم ہے۔

اور انہوں نے اس قول سے اپنے مقام کا بتایا یعنی تلوین میں تمکین کا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں احوال کا سامنا نہیں

احوال کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ راہ سلوک میں کوئی خلل آ گیا ۔ احوال کا بدلنا وہ طبیعی میزان ہے جسے سالک ہر منزل، ہر مقام، ہر درجہ میں دیکھتا ہے۔ والسلام.

شیخ اکبر کے طریق میں ذکر صرف زبان تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی دل یا سر میں ذکر کے تمام درجات تک ہے۔ بلکہ یہ بندے یا سالک کے تمام حالات اور سکنات کو اس کے اعمال اور اقوال میں قربت کی راہ سے شامل کرتا ہے، اور یہ عمومی اور شمولی ذکر ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہا: "آپ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے"، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ذکر تمام حالات میں ہوتا تھا، جاگنے اور سونے، حرکت اور سکون میں۔ اور یہی مقام ذکر شیخ اکبر کے نزدیک ہے، یعنی یہ صرف زبان کا ذکر نہیں بلکہ شمولی ذکر ہے۔

ذكر زبان تك محدود نہیں