Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

اللہ کا خلیفہ اور رسول کا خلیفہ

اللہ کے خلیفہ اور رسول کے خلیفہ میں اختلاف

ابرار احمد شاہی

4/22/20241 min read

اہل ظاہر اور اہل باطن کا اختلاف
––––––––––––––––––––––––––––––––
لیکن یہاں ایک باریک نکتہ ہے جسے ہم جیسے لوگ (یعنی اہل تحقیق) ہی جانتے ہیں، یہ (نکتہ) اُس اخذ سے متعلق ہے جس سے یہ (خلفا) حکم لگاتے ہیں؛ اور جو رسول کی شریعت ہے۔ پس رسول کا خلیفہ وہ ہے جو آپ سے نقل کیا گیا حکم اخذ کرے، یا اُس اجتہاد سے اِس حکم تک پہنچے جس کی اصل آپ سے منقول ہے۔ لیکن ہم میں کچھ لوگ یہ حکم اللہ سے اخذ کرتے ہیں؛ یوں وہ اِس حکم میں بھی براہ راست اللہ کے خلیفہ ہوتے ہیں، سو اِس (شخص) کے لیے بھی مواد وہیں سے ہوتا ہے جہاں سے اُس کے رسول کے لیے ہوتا ہے؛ لیکن وہ ظاہر میں (شریعت رسول کا ہی) تابع ہوتا ہے کہ اِس حکم میں وہ رسول کی مخالفت نہیں کرتا۔ جیسا کہ عیسیٰ جب نازل ہو کر حکم کریں گے ، یا جیسے اللہ کے اِس قول میں نبی محمد ﷺکا حال تھا: ﴿یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی پس آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے﴾ (الانعام: 90) ایسا شخص صورتِ اخذ سے جو کچھ جانتا ہے وہ اُسی سے مخصوص ہوتا ہے اور (حکم رسول کے) موافق ہوتا ہے، وہ اِس (حکم) میں اُسی جیسا ہے جیسا کہ نبی ﷺ اپنے سے پہلے رسولوں کی شریعت کو خود سے مقرر کریں، چنانچہ ہم اِس (حکم) کی اتباع آپ کے مقرر کرنے سے کرتے ہیں اِس لیے نہیں کہ وہ حکم آپ سے پہلے دیگر انبیا کی شریعت کا حصہ تھا۔ اسی طرح خلیفہ اللہ سے وہی کچھ اخذ کرتا ہے جو اُس سے رسول نے اخذ کیا، سو زبانِ کشف سے ہم اِس کے بارے میں کہتے ہیں: یہ “اللہ کا خلیفہ” ہے، جبکہ زبانِ ظاہر سے کہتے ہیں: یہ “رسول اللہ کا خلیفہ ہے۔” اِسی لیے رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی اور آپ نے کسی کو اپنا خلیفہ مقرر اور متعین نہیں کیا؛ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے رب سے خلافت اخذ کریں گے؛ اور ایسا شخص خلیفہ تو اللہ کا ہو گا لیکن حکم شریعت میں آپ کا موافق ہو گا، جب آپ کو یہ پتا چلا تو آپ نے اس معاملے میں روک نہیں لگائی۔

فصوص الحکم

آج خلافتِ الہی اس منصب پر نہیں، یہ تو صرف اُسی شریعت میں کمی یا اضافہ کرتی ہے جو اجتہاد سے مقرر کی گئی، اُس شریعت میں نہیں جو محمد ﷺکو بالمشافہ بتلائی گئی۔ بیشک (آج کے) خلیفہ سے جب ایسا کچھ ظاہر ہوتا ہے جو حکم (شرع) میں کسی خاص حدیث کے خلاف ہوتا ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اِس (خلیفہ کا) اجتہاد ہے، جبکہ ایسی بات نہیں۔ بلکہ اِس امام (یعنی خلیفہ) کے نزدیک یہ حدیث کشف کی جہت سے نبی کریم سے ثابت ہی نہیں ہوتی، اگر یہ ثابت ہوتی تو وہ اِسی کے موافق حکم کرتا، چاہے اِس حدیث کے سب راوی عادل ہوں، لیکن کوئی (عادل راوی) بھی وہم میں پڑنے یا معنی نقل کرنے سے محفوظ نہیں۔

آج کے خلیفہ سے یہی کچھ ہوتا ہے، اور عیسیٰ بھی یہی کریں گے؛ اپنے نزول کے بعد آپ بہت سے اجتہاد کے مشروع اور مقررہ احکام اٹھا دیں گے، اور آپ کے اٹھانے سے حق کی وہ مشروع صورت واضح ہو جائے گی جس پر (ہمارے نبی محمد) تھے، خاص طور پر اُس وقت جب کسی ایک واقعے میں مختلف اماموں کے اقوال ایک دوسرے کے الٹ ہوں، اِس مقام پر تو قطعاً معلوم ہے کہ اگر وحی اترتی تو کسی ایک قول پر اترتی، اور یہی حکم الہی ہوتا۔ جبکہ اِس کے سوا دیگر (اقوال)، اگرچہ حق نے انہیں ثابت کیا، یہ “شرع تقریر” (ثابت کی گئی شریعت ہے) تا کہ اس امت پر حکم کو پھیلا دینے سے اِن پر تنگی نہ رہے۔

فص داؤدی فصوص الحکم

اللہ کا خلیفہ اور رسول کا خلیفہ