Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

Published Books

اسمائے الہیہ کے اسرار و معانی

اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾[الأعراف: 180] بیشک اللہ کے خوبصورت نام ہیں سو اِن ناموں سے اُسے پکارو، اور فرمایا: ﴿قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى﴾ (الإسراء: 17) چاہے اللہ کے نام سے پکارو یا الرحمن کے نام سے پکارو، اُسے جس نام سے پکارو تو اُس کے سب نام اچھے ہیں۔ بقول شیخ یہ اسما “اسما کے اسما” ہیں، کائنات کی ابتدا ہیں اور نسبتوں کی جا ہیں۔ یہ جامعیت کی نسبت سے ذات پر دلالت کرتے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہر اسم کا مفہوم جدا ہے۔ بقول شیخ یہی اسما اعیان کائنات ہیں کہ جب حق نے ان اسما کے اعیان کو دیکھنا چاہے تو کائنات کو ایجاد کیا۔ پھر کائنات میں ان کا اثر یوں ہے کہ ہر بندہ اسم الہی کے ظہور کی جا ہے، اور انہی اسما میں سے کوئی اسم اس کے حال پر حاکم ہے۔

میرے نزدیک کتاب الاسرا کی اہمیت اِس کے مندرجات سے زیادہ اِس کے اسلوب میں ہے۔ یہ شیخ اکبر کا وہ کلاسیک اسلوب ہے جس سے آپ نے اپنی کتابوں کی ابتدا کی تھی۔جیسا کہ ہم اسماعیل ابن سودکین کے مقدمے میں پڑھ چکے ہیں کہ جب آپ نے شیخ اکبر محیی الدین ابن العربی سے یہ سوال کیا تھا کہ یہ کتاب عالم معانی سے مقید ہے؟ تو اس کے جواب میں شیخ نے فرمایا: “مجھ پر یہ کشف مجرد معانی کی صورت میں ہوا، اور میرے اکثر کشف ایسے ہی ہیں۔ پھر حق سبحانہ نے مجھے وہ قوت بخشی کہ میں معانی کو عبارت میں ڈھال سکوں، اور صورتوں میں قید کر سکوں۔ لہذا اِس کتاب میں اور اپنی دیگر کتب میں میں نے ان مجرد معانی کو رمزاً ایسی عبارات میں بیان کیا ہے کہ یہ خواب کی طرح ہے اور اس کی تعبیر وہی معبّر بتا سکتا ہے جو اس کے اصولوں سے واقف ہے۔”

ابن العربی کی روحانی معراج

فصوص الحکم

فصوص الحکم شیخ اکبر کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ یہ ایک مبارک خواب کی صورت میں آپ کو دی گئی۔ اس خواب کے بارے میں شیخ فصوص کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

“میں نے ایک بشارت دینے والے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا، یہ خواب مجھے سن 627 ھ اخیر عشرہ محرم، شہر دمشق میں دکھلایا گیا۔ آپؐ کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، مجھے بولے: “یہ کتاب فصوص الحکم ہے، اسے پکڑو اور لوگوں تک پہنچاؤ تاکہ وہ اِس سے فائدہ اٹھائیں۔” میں نے کہا: جیسا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہماری کامل فرمانبرداری اللہ، اُس کے رسول اور وقت کے حاکموں کے لیے ہے۔ سو میں نے اِس خواہش کو پورا کیا، نیت کو خالص کیا، اور اپنی توجہ اور مقصد اِس کتاب کو کسی کمی بیشی کے بغیر ویسے منظر عام پر لانا بنا لیا جیسا کہ مجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہا۔”

اصلاح نفس کا آئینہ حق

2024 Editions

روح القدس” شیخ اکبر کے درمیانی دور کی کتابوں میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے؛ یہ اس دور میں لکھی گئی جب شیخ اپنی زندگی کے ان ایام سے گزر رہے تھے جہاں پر آپ نے اسلامی تصوف کو شریعت کے تابع ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کتاب کا عمومی انداز ایسا رکھا گیا ہے کہ اس میں تصوف کے عملی پہلو یعنی راہ سلوک کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ شیخ کے نزدیک تصوف یا طریقت کی دو شاخیں ہیں: ایک سلوک اور دوسرا سفر۔ سلوک سے شیخ کی مراد اعمال کی تکرار اور ان کے نتائج سے حاصل احوال ہیں۔ جبکہ سفر سے مراد ان حقائق کی عقلی کشفی برہانی معرفت ہے۔پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہے کہ جن ایام میں شیخ نے یہ کتاب تالیف کی وہ آپ کی زندگی کے سخت ترین ایام تھے۔ مکہ میں تو آپ بالکل ہی اجنبی تھے۔ لہذا مکہ کا ابتدائی دور آپ کے لیے کافی کٹھن تھا۔

اسمائے الہیہ کے اسرار و معانی

اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾[الأعراف: 180] بیشک اللہ کے خوبصورت نام ہیں سو اِن ناموں سے اُسے پکارو، اور فرمایا: ﴿قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى﴾ (الإسراء: 17) چاہے اللہ کے نام سے پکارو یا الرحمن کے نام سے پکارو، اُسے جس نام سے پکارو تو اُس کے سب نام اچھے ہیں۔ بقول شیخ یہ اسما “اسما کے اسما” ہیں، کائنات کی ابتدا ہیں اور نسبتوں کی جا ہیں۔ یہ جامعیت کی نسبت سے ذات پر دلالت کرتے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہر اسم کا مفہوم جدا ہے۔ بقول شیخ یہی اسما اعیان کائنات ہیں کہ جب حق نے ان اسما کے اعیان کو دیکھنا چاہے تو کائنات کو ایجاد کیا۔ پھر کائنات میں ان کا اثر یوں ہے کہ ہر بندہ اسم الہی کے ظہور کی جا ہے، اور انہی اسما میں سے کوئی اسم اس کے حال پر حاکم ہے۔

ابن العربی کی روحانی معراج

میرے نزدیک کتاب الاسرا کی اہمیت اِس کے مندرجات سے زیادہ اِس کے اسلوب میں ہے۔ یہ شیخ اکبر کا وہ کلاسیک اسلوب ہے جس سے آپ نے اپنی کتابوں کی ابتدا کی تھی۔جیسا کہ ہم اسماعیل ابن سودکین کے مقدمے میں پڑھ چکے ہیں کہ جب آپ نے شیخ اکبر محیی الدین ابن العربی سے یہ سوال کیا تھا کہ یہ کتاب عالم معانی سے مقید ہے؟ تو اس کے جواب میں شیخ نے فرمایا: “مجھ پر یہ کشف مجرد معانی کی صورت میں ہوا، اور میرے اکثر کشف ایسے ہی ہیں۔ پھر حق سبحانہ نے مجھے وہ قوت بخشی کہ میں معانی کو عبارت میں ڈھال سکوں، اور صورتوں میں قید کر سکوں۔ لہذا اِس کتاب میں اور اپنی دیگر کتب میں میں نے ان مجرد معانی کو رمزاً ایسی عبارات میں بیان کیا ہے کہ یہ خواب کی طرح ہے اور اس کی تعبیر وہی معبّر بتا سکتا ہے جو اس کے اصولوں سے واقف ہے۔”