Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

فصوص الحکم سے میری شناسائی

فصوص الحکم سے شناسائی کے تین ادوار

فصوص الحکم

ابرار احمد شاہی

6/8/20241 min read

دور ناشناسائی

––––––––––––––––––––––––––––––––

فصوص الحکم شیخ اکبر کی وہ کتاب ہے کہ جس کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عارف کامل شیخ محقق، قدوة الاکابر محیی الدین محمد ابن العربی کی وجہ شناخت ہے تو غلط نہ ہو گا۔ میں نے جامعہ اسلامیہ العالمیہ سے فراغت کے بعد جب سن 2005 میں پہلے پہل شیخ ابن العربی کو پڑھنا شروع کیا تو ان سے میرا پہلا تعارف اِسی کتاب کے حوالے سے ہوا، یہ اُس دور کی بات ہے جب میں لفظ طریقت کے لغوی معنی سے بھی نابلد تھا چے جائیکہ کسی کا مرید ہوتا۔ اسلامک یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد ایک جگہ مترجم کی نوکری کرتا تھا۔ انہی دنوں ملک ہمیش گل کے ساتھ میرا تعلق بڑھنے لگا، ہم تصوف کے موضوع پر گھنٹوں بات چیت کرتے۔ میں نے جامعہ اسلامیہ کے شعبہ اصول الدین میں کچھ وقت گزار لینے کے بعد اور عربی زبان کی بنیادی سمجھ بوجھ حاصل کر لینے کے بعد اسلامی شرع کے مصادر سے کچھ واقفیت حاصل کر لی تھی، لیکن تصوف اور اس کے اسرار و رموز سے انجان تھا۔ تصوف کے بنیادی نکات پر طویل گھنٹوں تبادلہ خیال کرنے کے بعد ہم دونوں اِسی نتیجے پر پہنچے کہ اگر تصوف کی انتہا کو سمجھنا ہے تو شیخ اکبر محیی الدین محمد ابن العربی کے نظریہ وحدت الوجود کا پیچھا کرنا ہو گا۔ وحدت الوجود معرفت والے تصوف کی اک ایسی پُراَسرار راہ ہے کہ اِس کی باریکیوں کو حضرتِ شیخ نے ہی صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے لائے۔

اس حقیقت پر مطلع ہونے کے بعد ہماری تمام تر توجہ حضرتِ شیخ کی کتابوں کو جمع کرنے، ان کو زیر مطالعہ لانے اور ان میں رکھے گئے موتی چننے میں صرف ہونے لگی۔ چونکہ اردو زبان کا درجہ حضرت شیخ کے بیان سے بہت نیچے واقع ہوا ہے لہذا ہمیں اردو میں کلام شیخ کے اچھے تراجم نہ مل پائے، اور جو چند تراجم نظر سے گزرے وہ تحریف معنی کا مجموعہ نظر آئے۔ چنانچہ ہم نے زبان شیخ (یعنی عربی) میں آپ کی کتابوں کی تلاش شروع کر دی۔ اللہ کے فضل و کرم سے جلد ہی ہمیں شیخ کی دو تین کتب عربی زبان میں مل گئیں جن میں سے ایک شرح فصوص الحکم بھی تھی۔ یہ مولانا جامی کی شرح تھی جسے دار الکتب العلمیہ نے شائع کیا تھا۔

جب میں نے پہلی مرتبہ اِس کتاب (یعنی فصوص الحکم) کو پڑھا تو اِس قدر تنگی اور وحشت ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ میں اور ہمیش صاحب اکٹھے بیٹھ جاتے، میں عربی عبارت پڑھتا اور جیسے تیسے ٹوٹا پھوٹا اردو ترجمہ ہوتا، انہیں سناتا، پھر ہم اِس پر کچھ دیر غور کرتے۔ پھر اگلی عبارت پڑھتے، لیکن یہ تنگی اور وحشت اِس حد تک بڑھ جاتی کہ ہم ایک صفحے سے زائد نہ پڑھ سکتے، اور تنگ آ کر کتاب بند کر دیتے۔ یہ کہتے کہ آئندہ اِسے نہیں پڑھیں گے، یہ بھی کوئی پڑھنے والی کتاب ہے۔ لیکن اگلے ہی روز پھر سے ہمت باندھ کر بیٹھ جاتے اور وہی سب کچھ دوبارہ سے ہوتا۔ اگرچہ ہمارے پاس فصوص الحکم شرح جامی کے ساتھ موجود تھی، لیکن اس ابتدائی دور میں شرح بھی فہم میں معاون ہوتی دکھائی نہ دیتی تھی۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد ہمیں اسی کتاب کا ایک خلاصہ “نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص” کی صورت میں مل گیا، یوں فصوص الحکم سے ہمارا پہلا تعلق ختم ہوا اور نقش الفصوص سے جڑ گیا۔ انہی ایام میں میں نے “نقش الفصوص” کا اردو ترجمہ شروع کیا، چونکہ یہ کتاب فصوص الحکم کا اختصار تھا اور اس پر مولانا جامی کی شرح بھی نہایت آسان تھی تو ہمیں فصوص کا یہ اختصار بہتر لگا۔ ترجمہ مکمل ہوا اور ہم فصوص الحکم کے مرکزی مفاہیم کو نقش الفصوص اور شرح جامی کے آئینے سے پڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان دونوں ہم “اعیان ثابتہ” کے موضوع پر طویل بحث کرتے اور بعض دفعہ تو جہاں بحث ایک دن ختم ہوتی وہیں سے اگلے روز شروع ہوتی اور کتنے ہی دن گزر جاتے لیکن ایک موضوع مکمل نہ ہوتا۔

خیر یہ تھا فصوص الحکم سے میرا پہلا تعارف جس میں اس کتاب کا ظاہر بھی مجھ سے اوجھل رہا اس کے باطن تک پہنچنے کی کیا بات۔ یہ وہی دور ہے جب میں اسلامک یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، میں نے اپنے “ایم ایس ”کے مقالے کے لیے ابن العربی کی “ کتاب الحجب” کا انتخاب کیا تو ایک عربی پروفیسر نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر کہا: بھائی آپ ابن العربی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اپنا ہاتھ سامنے کیا اور بولے: عربی زبان یہ ہے یعنی ہاتھ کے اوپر والا حصہ ہے جو ہم لوگ سمجھ لیتے ہیں لیکن ابن العربی کی عربی یہ ہے یعنی ہاتھ کی ہتھیلی؛ نیچے والا حصہ۔ عرب لوگ عربی زبان میں ابن العربی کو نہیں سمجھ سکتے تو آپ کیا سمجھیں گے۔ خیر اس وقت تو میں نے یہ کہہ دیا کہ میں ابن العربی کو سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن اب غور کرتا ہوں تو ان کی یہ بات فصوص الحکم پر سو فیصد درست بیٹھتی ہے۔ فصوص الحکم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، آپ اس کے ظاہر کو پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اگر تھوڑا بہت سمجھ بھی رہے ہوں تو شیخ کی مراد نہیں سمجھ رہے ہوتے کیونکہ شیخ کی مراد اس کا باطن ہے جو اکثر اوقات ظاہر کے حجاب میں محجوب ہی ہوتا ہے۔ اس ابتدائی دور میں مجھے فصوص کا ظاہر بھی درست سمجھ نہ آیا کیونکہ یہ فصوص سے ناشناسائی کا دور تھا۔

یہ میرا فصوص الحکم سے عدم تعلق کا درمیانی دور ہے، آپ اِسے اصطلاح طریقت میں “فترة” سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس وقت میں علوم شیخ پر محمود محمود الغراب کی کتابیں پڑھنے کے بعد اُن سے بے حد متاثر تھا، اور شیخ اکبر کے بارے میں اُن کی کہی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھتا تھا (کسی مبتدی کی سمجھ ایسی ہی ہوتی ہے)۔ اسی دوران میں میں نے اُن کی لکھی گئی شرح فصوص الحکم بھی پڑھ ڈالی۔ اِس شرح کے مقدمے میں آپ لکھتے ہیں: “اِس کتاب کا ذکر شیخ اکبر کی کسی کتاب میں نہیں آیا، ہاں مگر ملک ابو بکر بن ایوب کی دی گئی اجازت میں اور آپ کے دیوان میں جس سے ہم یہ دلیل لے سکتے ہیں کہ یہ شیخ اکبر کی تالیف ہی ہے۔ جیسا کہ شیخ نے سن 227 ہجری کو فصوص لکھی اور یہ آپ کی آخری کتابوں میں سے ہے اسی لیے ہم اس میں تنزلات موصلیہ، فتوحات مکیہ اور تجلیات الہیہ کا نام پاتے ہیں۔ لیکن یہ شیخ کی آخری کتاب نہیں کیونکہ اس کے بعد بھی آپ فتوحات مکیہ کی تالیف کرتے رہے۔

اِس کے بعد محمود غراب نے اپنے مقدمے میں حضرتِ شیخ کی ان 28 کتابوں کے نام گنوائے ہیں جو شیخ نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہیں اور ان کے ہاتھ سے لکھے مخطوطات آج تک ترکی اور عراق کی کتب خانوں میں موجود ہیں۔ آپ نے جو نام گنوائے ہیں ان میں سے اکثر مخطوطات ابن العربی فاونڈیشن کے پاس بھی موجود ہیں اور اکثر تو ہماری تحقیق سے شائع بھی ہو چکی ہیں۔ محمود غراب نے جن 28 کتابوں کے نام درج کیے وہ بھی اِن کی اپنی تحقیق نہیں تھی بلکہ انہوں نے مختلف کتب خانوں کی فہرستوں پر ہی بھروسا کیا یا پھر عثمان یحیی کی کتاب “تالیفات ابن العربی؛ تحقیق اور تصنیف” ان کا مصدر رہی۔

محمود غراب لکھتے ہیں: ان ساری کتابوں میں اور فتوحات مکیہ کے مضامین میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ساری کتابیں شیخ اکبر کی ہی ہیں، ہاں بعض مسائل میں فتوحات مکیہ میں تعارض ہے لیکن ہم یہ الفاظ میں سے کسی لفظ کے مدلول کی شرح میں پاتے ہیں ... یا پھر ہم دو متضاد آرا پاتے ہیں جب شیخ علمائے کلام، علمائے عقل، علمائے فلک، یا علمائے طبیعہ کی رائے لاتے ہیں کیونکہ نفس الموضوع میں ان کی آرا کا اختلاف ہوتا ہے، لیکن جب شیخ حقائق کی بات کریں تو اس میں کوئی تعارض نہیں ہوتا، بیشک حقائق تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی کشف میں تعارض ہوتا ہے۔ اس کے بعد محمود غراب نے یہ بتایا ہے کہ کیسے فصوص الحکم کے مضامین حقائق اور علوم الہیہ میں انہیں شیخ اکبر کی دوسری کتابوں سے متضاد معلوم ہوئے، شیخ نے فصوص الحکم میں شواہد سے کمزور استدلال کیا ہے حالانکہ انہی شواہد سے فتوحات مکیہ میں پُرزور استدلال موجود ہے۔

چونکہ فصوص الحکم کا شیخ کے ہاتھ سے لکھا نسخہ نا پید ہے اور ہمارے پاس اس کتاب کا سب سے قدیمی اور مستند ترین نسخہ شیخ صدر الدین قونوی کا نسخہ ہے، اس پر محمود غراب لکھتے ہیں: فصوص کے صدر الدین قونوی والے نسخے پر ایک سماع ہے جس میں وقت اور جگہ کے حوالے سے ادھوری معلومات ہیں، یہ سماع غلاف پر لکھی گئی ہے، گویا کہ سامعین موجود ہی نہیں، سننے والے شیخ اکبر ہیں اور پڑھنے والے صدر الدین قونوی۔ یہ سن 630 ہجری کی سماع ہے، اس دور میں شیخ دمشق میں رہتے تھے اور اس اہم ترین کتاب کی تلاوت و سماعت میں حاضرین کا نہ ہونا معاملے میں شک پیدا کرتا ہے، حالانکہ اسی دور میں کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں نے فتوحات کی سماعات میں حصہ لیا۔ اور اگر ہم اس بات کا بھی اضافہ کر لیں کہ یہ نسخہ بھی شیخ کے ہاتھ سے لکھا نہیں بلکہ یہ آپ کے دیگر کلام کے متعارض ہے تو اس سب سے ہم پر یہی لازم آتا ہے کہ نقل، عقل اور تحقیق کے پیمانوں سے شیخ کے ہاتھ سے لکھے کلام کو فصوص سے مقدم اور قابل بھروسا تصور کریں۔

اس کے بعد محمود غراب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر اس کتاب کی نسبت شیخ صدر الدین قونوی تک ثابت ہو جاتی ہے ( جو کہ ثابت ہے کیونکہ یہ انہی کے ہاتھوں لکھی گئی کتاب ہے) تو پھر یہ انہی کی کتاب ہے اور انہوں نے اپنی یادداشت سے اسے لکھا ہے، نہ یہ شیخ نے املا کروائی ہے اور نہ ہی انہوں نے اسے شیخ کے نسخے سے نقل کیا ہے۔ یہاں پر آپ کا مقدمہ ختم ہوا۔

بالکل مقدمے سے ملتا جلتا کلام محمود غراب نے شرح فصوص الحکم کے خاتمے میں لکھا ہے، جہاں مزید دلائل سے یہ ثابت کیا کہ فصوص الحکم شیخ اکبر کی کتاب نہیں۔ اس میں آپ نے شیخ کی اجازت پر سوالات اٹھائے، شیخ صدر الدین کو دی گئی اجازت پر سوالات اٹھائے، اور اس بات سے لاعلمی کا اظہار کیا کہ آیا اس اجازت میں فصوص الحکم موجود بھی ہے یا نہیں۔ پھر انہوں نے بغیر کسی تحقیق کے نقش الفصوص کو اسماعیل ابن سودکین کی کتاب قرار دیا۔ اور فصوص الحکم میں سے چند الفاظ کی مثالوں سے یہ ثابت کیا کہ شیخ یہ الفاظ استعمال نہیں کرتے (حالانکہ وہی الفاظ بعینہ فتوحات میں بھی موجود ہیں۔) آخر میں یہ لکھا کہ : فصوص الحکم نہ تو شیخ کی اہم کتابوں میں سے ہے اور نہ ہی شیخ کی کتاب ہے بلکہ فتوحات مکیہ ہی شیخ اکبر کی اہم ترین اور مستند ترین کتابوں میں سے ہے۔ ہم ان اعتراضات پر اس مقدمے کے بعد نہ صرف تفصیلی کلام کریں گے بلکہ محمود غراب کی غلطیوں کی جانب بھی اشارہ کریں گے۔

فصوص الحکم کے ساتھ ہمارا یہ وہ دور تھا جس میں ہم بھی محمود الغراب کے زیر سایہ فصوص الحکم کو شیخ اکبر کی کتاب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ فصوص کے اصل مفاہیم تک عمیق رسائی نہ ہونے کے باعث اس کے متنازع مقامات کو علوم تصوف میں الحاق ہی سمجھتے تھے۔ یہ بات بھی زیر نظر رہے کہ امام ابن تیمیہ نے بھی فصوص الحکم کو پڑھنے کے بعد ہی شیخ اکبر پر دشنام طرازی کی۔ چنانچہ ایک اوسط درجے کا قاری جسے معرفت کی الف بے کا علم نہیں، جو شریعت کی فہم میں ظاہر شریعت سے آگے نہ بڑھ سکا، اُس پر فصوص الحکم کے ان مفاہیم کو ہضم کرنا کس قدر مشکل ہو گا۔ اس دور میں قاری فصوص الحکم سے اجتناب کے عذر خود ہی تراش لیتا ہے، کبھی تحقیق شدہ متن نہ ہونا، کبھی اصل مخطوطات تک رسائی نہ ہونا، کبھی متاخرین کی یہ آرا سامنے آ جاتی ہیں کہ اس کتاب میں الحاقی عبارات ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ عذر کوئی بھی ہو، جب تک راہ ِتحقیق کی معرفت نہیں ملتی اِس کتاب کی قبولیت بھی نہیں ہوتی۔

عدم معرفت اور بے اعتنائی کا دور

فصوص الحکم سے میری شناسائی

اس کے بعد ایک تیسرا دور شروع ہوا جب فصوص الحکم پر پڑے حجابات اٹھنا شروع ہوئے۔

؏افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر

ایک ایک کر کے تمام اعتراضات رفع ہو گئے۔ ہم پر محمود محمود الغراب کے استدلال کی کمزوریاں عیاں ہونا شروع ہو گئیں۔ یہ واضح رہے کہ ابھی ہم نے فصوص الحکم پر باقاعدہ کام شروع نہیں کیا تھا، لیکن شیخ کی باقی کتب کی تحقیق اور فتوحات مکیہ کی شناسائی نے ہمارے لیے راہ کو ہموار کرنا شروع کیا۔ پھر اللہ کے کرنے سے وہ وقت بھی آ گیا کہ استاذ عبد العزیز سلطان المنصوب نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فصوص الحکم کا پر کام کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اس سلسلے میں مخطوطات کی ضرورت ہے۔ ہم نے انہیں خوش آمدید کہا اور یہ بشارت دی کہ ہمارے دل میں بھی اِسی پراجیکٹ پر کام کرنے کا خیال ہے۔ ابن عربی سوسائٹی کی جین کلارک کو باقاعدہ فصوص کے مخطوطات ارسال کرنے کی “ای میل” کر دی اور ایک ماہ کے اندر اندر فصوص کے مخطوطات ہمارے پاس تھے۔ منصوب صاحب کے ساتھ معاملہ یوں طے پایا کہ پہلے ہم یہاں متن کی تدوین کریں گے اور بعد میں آپ وہاں یمن میں اسے فائنل کریں گے۔ میں نے دو مخطوطات سے متن کی تیاری کا کام شروع کیا۔ پہلا مخطوط شیخ صدر الدین قونوی کے ہاتھ کا لکھا نسخہ تھا جبکہ دوسرا لندن کی کسی نجی لائبریری کا ایک نسخہ تھا۔ مکمل تحقیق کر لینے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچے کے ابو العلا عفیفی والا ایڈیشن ہو یا کوئی پرانی شرح ہمیں کوئی الحاقی عبارت نہیں ملی بلکہ وہی غلطیاں ملیں جو مخطوطات کی نقل کے دوران کاتب حضرات کیا کرتے ہیں، انہیں آپ پروف کی غلطیاں کہہ سکتے ہیں۔ یوں فصوص الحکم کے متن کی تحقیق بفضلہ تعالی مکمل ہوئی۔

عربی متن کی تحقیق کے بعد فصوص سلیس قابل فہم عبارت میں اس کے اردو ترجمہ کا مرحلہ باقی تھا۔ ابھی ترجمے کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی روحانی معاملے کی وجہ سے اچانک بہت بیمار ہو گیا۔ میری صحت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک اللہ کی طرف سے خواب میں ایک بہت بڑی خوشخبری ملی۔

فصوص الحکم سے متعلق ایک خواب

میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک میوزیم یا لائبریری میں ہوں جہاں شو کیسز میں پرانے مخطوطات رکھے ہیں۔ جب میں ایک شوکیس کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو اِس پر فصوص الحکم لکھا ہوتا ہے، اور ساتھ ہی ایک محافظ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ آٹھویں صدی ہجری کا کوئی نسخہ تھا۔ میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں یہ نسخہ لے لوں کیونکہ ان دنوں ہم فصوص الحکم پر تحقیق کر رہے تھے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہوں کہ اس نسخے کو کس طرح حاصل کروں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے پیچھے حضرت شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی کی روحانیت موجود ہے، اور آپ اِسی نسخے کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ مجھے کہتے ہیں: اِس نسخے میں بہت غلطیاں ہیں، لیکن میں وہ تجھے اپنے ہاتھ سے ٹھیک کر کے دوں گا۔ آپ نے یہ جملہ ایک سے زیادہ دفعہ دہرایا۔ پھر میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح یہ نسخہ لوں اور یہاں سے باہر چلا جاؤں۔ پتا نہیں کس طرح یہ نسخہ میرے ہاتھ آتا ہے اور مجھے یہ خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ نسخے کی تلاش میں میرے آئیں گے لہذا مجھے کسی جگہ جا کر چھپ جانا چاہیے۔ میں شیخ اکبر کو اپنے ساتھ لیتا ہوں اور معروف راستے سے ہٹ کر ایک لمبا چکر کاٹ کر پہاڑ کی ایک غار کی طرف جاتا ہوں۔ اس غار کے اوپر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے۔ پہلے میں اندر جاتا ہوں تو شیخ غار کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، آدھے اندر آدھے باہر، میں انہیں اندر کر لیتا ہوں؛ اس خوف سے کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔ غار میں ایک تیسرا شخص بھی ہے جس کے بارے میں اتنا ہی یاد ہے کہ وہ خادم کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ پھر میں غار کے دروازے پر پردہ ڈال دیتا ہوں۔ خواب ختم ہوتا ہے اور میں جاگ جاتا ہوں، یہ صبح صادق کا وقت تھا۔

اس خواب کے بعد سب سے پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ یہی تھا کہ میں اس کی تعبیر کیسے پاؤں گا کیسے شیخ مجھے اس نسخے کی غلطیاں ٹھیک کر کے دیں گے؟ اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو مجھ تک اُن کے ہاتھ سے لکھا گیا نسخہ پہنچے گا، یا پھر اِس کتاب کے ترجمے میں ان کی طرف سے باطنی امداد ملے گی کہ وہ غلطیاں نکل جائیں گی۔ میں نے متعدد لوگوں کو یہ مبارک خواب سنایا جن میں میرے اس دور کے شیخ سید رفاقت حسین شاہ صاحب بھی تھے، انہوں نے اِس کی تعبیر میں ایک اچھوتے اشارے کی جانب میری رہنمائی فرمائی۔کہنے لگے: یہاں ہاتھ سے ٹھیک کر کے دینے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے جو لکھیں گے وہی شیخ کا ہاتھ ہو گا۔ مجھے بھی یہ تعبیر بھلی لگی ، میں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچنے لگا کہ دیکھتے ہیں عالم حس میں معانی کا نزول کیسے ہوتا ہے۔

فصوص الحکم سے شناسائی