Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

حفیفی خدا اور اعتقادی خدا کا فرق

بات سمجھیں دھوکا مت کھائیں

ابرار احمد شاہی

3/20/20241 min read

حقیقی خدا اور اعتقادی خدا کا فرق سمجھیں تاکہ کلام شیخ اکبر سمجھ آئے۔
––––––––––––––––––––––––––––––––––––––

پھر اُس نے اپنے اور اپنے بندے کے مابین حجاب اٹھایا ، تو بندے نے اُسے اپنے اعتقاد کی صورت میں پایا؛ اور وہ (یعنی حق) اس (بندے) کے اعتقاد کا عین ہوا۔ پس قلب اور آنکھ ہمیشہ حق میں اپنے اعتقاد کی صورت کا مشاہدہ ہی کرتے ہیں۔ اور وہ حق جو اعتقاد میں آیا تو وہی اپنی صورت سے قلب میں سمایا، اُسی نے اس (بندے ) پر تجلی کی تو اِس (بندے) نے اُسے پہچانا؛ پس آنکھ صرف اعتقادی حق ہی دیکھتی ہے۔

اب اعتقادات کا تنوّع بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں: سو جس نے اِسے (یعنی حق کو کسی ایک صورت میں) قید کیا تو (اِس صورت )کے سوا میں وہ جس میں بھی آیا اُس کا انکار کیا، اور جب (حق) نے اِس پر اِسی مقید صورت میں تجلی کی تو اِس کا اقرار کیا۔ اور جس نے اُسے قید سے ماورا جانا تو اُس نے حق کا انکار بھی نہ کیا، بلکہ وہ جس صورت میں بھی آیا اُس کا اقرار کیا۔ وہ خود سے (حق تعالی) کو اُس صورت کے مطابق تعظیم دیتا ہے جس میں وہ اِس کے سامنے آیا، (اور اُس کا ظہور) لا متناہی (صورتوں) میں ہے؛ بیشک تجلی کی صورتوں کی کوئی انتہا نہیں جس پر وہ ٹھہر جائیں۔ اِسی طرح عارفین میں علم باللہ کی بھی کوئی انتہا نہیں جہاں یہ ٹھہر جائیں؛ بلکہ عارف تو ہر وقت اُس کے علم کی زیادتی کا طالب ہی رہتا ہے: ﴿اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما﴾ ﴿اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما﴾﴿اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما﴾ (طہ: 114) چنانچہ یہ معاملہ دونوں جانب سے لامتناہی ہے۔ یہ اُس وقت جب تو حق اور خلق کی بات کرے۔

لیکن اگر تو نے اُس کے اِس قول میں غور کیا: “میں اُس کی وہ ٹانگ ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اُس کا وہ ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اُس کی وہ زبان جس سے وہ بولتا ہے” یا اِس کے سوا دیگر قوتیں اور ان کے مقامات، جو کہ (بندے کے) اعضا ہی ہیں، تو تُو نے فرق نہ کیا، اور کہا: یہ معاملہ سارے کا سارا یا تو حق ہے یا پھر خلق ہے۔ ایک نسبت سے یہ خلق ہے تو دوسری نسبت سے حق ہے، جبکہ عین واحد ہے۔ پس وہ صورت جس نے تجلی کی وہ بعینہ وہی صورت ہے جس نے تجلی قبول کی؛ پس وہی (متجلی) تجلی کرنے والا بھی ہے، اور (متجلی لہ) بھی ہے کہ یعنی جس پر تجلی ہوئی۔ اب غور کر کہ ہویت کی حیثیت سے، اور اُس کے اسمائے حسنی کے حقائق میں اُس کی اِس عالم سے نسبت کی حیثیت سے اللہ کا معاملہ کیا عجیب ہے!
فصوص الحکم جدید ایڈیشن 2024
––––––––––––––––––––––––––––––––––––

اب اس عبارت کے ظاہر سے اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں اور حق اور خلق کو ایک سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بات ایسے نہیں۔ ابھی پچھلے ہی پیراگراف میں ہم نے اعتقادات اور تجلی کی صورت پر تفصیلی بات پڑھی ہے۔ اور یہ سمجھا ہے کہ بندہ حق کو اپنے اعتقاد کی صورت میں دیکھتا ہے اور یہ حقیقی حق نہیں بلکہ اعتقادی خدا ہے۔ یہی اعتقادی خدا دل میں سمایا اور یہی آنکھوں کے سامنے آیا۔ مخلوق میں یہ طاقت نہیں کہ وہ حقیقی خدا کی تجلی برداشت کر سکیں۔اسی اعتقادی خدا کا اقرار ہوا اور کرنے والوں نے اسی کا انکار بھی کیا۔ لہذا تجلی کا یہ معاملہ جمع و فرق سے ہے۔ فرق میں تو خود میں اور اپنے اعتقادی خدا میں فرق کرتا ہے جبکہ حالت جمع میں انہیں ایک تصور کرتا ہے۔ اور متجلی کو ہی متجلی لہ کہتا ہے کیونکہ یہ تجلی متجلی لہ کی استعداد پر ہی تھی گویا کہ اسی نے حق کی لامتناہی صورتوں میں اِس صورت کو قبول کیا۔ نہ یہ حقیقی خدا ہے اور نہ یہ صورت اس کی حقیقی صورت ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو معاملہ اعتقادی ہے اور اعتقاد حقیقت سے جدا ہے۔


ہم نے اعتقادی اور حقیقی خدا کا فرق بتایا اور سمجھایا ہے کہ اعتقادی خدا کی تجلی بندے کی استعداد پر ہے۔ جب اعتقادی خدا ہی بندے کی تخلیق ہے تو اس کی تجلی کی کیا اہمیت اسے کیونکر حقیقی مان لیا جائے۔ آج ہم دیکھیں گے کہ شیخ فص شعیبی میں ہمیں مزید کیا بتا رہے۔

1- اعتقادی خدا قلب والے کا نہیں ہوتا (قلب میں وسعت ہے جو بدلتا رہتا ہے)

2- اعتقادی خدا عقل والے کا ہوتا ہے (عقل میں قید ہے جو پکڑ کر پکی ہو جاتی ہے)

اسی لیے آپ کو صوفی جوڑتا اور مولوی توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں صوفی کو قلب والا اور مولوی کو عقل والا کہا گیا ہے۔ یہ توڑنے والے عقلی علما ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اپنے اعقتادی خدا کا اقرار کرتے ہیں لیکن کسی دوسرے کے اعتقادی خدا کی نفی کرتے ہیں۔ یہ لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ تیرا تصور الہ غلط ہے اور میرا تصور الہ ٹھیک ہے۔ لیکن جب ان کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کا اعتقادی خدا ان کی مدد نہیں کرتا کیونکہ وہ اعتقادی ہے نہ کہ حقیقی۔

قلب والے ہر صورت میں الہ کا اثبات کرتے ہیں۔ وہ حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اعتقادی خدا پر ہی بھروسا نہ کریں بلکہ حقیقی خدا تک پہنچیں۔ جہاں انہیں یہ پتا چلتا ہے

فمن ثم وما ثم وعين ثم هو ثمه
فمن قد عمه خصه ومن قد خصه عمه
فما عين سوى عين فنور عينه ظلمه
فمن يغفل عن هذا يجد في نفسه غمة
ولا يعرف ما قلنا سوى عبد له همة

(ترجمه)
-------------------------

وہاں کون ہے؟ اور وہاں کیا ہے؟ اور وہاں کا عین ہی وہاں ہے۔ جس نے اِس کی تعمیم کی اُس نے اُس کی تخصیص کی، اور جس نے اُسے خاص کیا اُس نے اُس کی تعمیم کی۔ نہیں ہے عین میں سوا عین کے، اور نور کا عین ہی اُس کی ظلمت ہے۔ اور جو کوئی اِس سے غافل رہا تو وہ خود صاحبِ حسرت ہے۔ اور ہماری بات صرف وہی جانتا ہے جس کے پاس ہمت ہے۔

﴿بیشک اِس میں اُس کے لیے نصیحت ہے جس کے پاس قلب ہو﴾ (ق: 37) کہ وہ مختلف صورتوں اور صفات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہ نہیں کہا: “جس کے پاس عقل ہو”، کیونکہ عقل قید ہے، یوں یہ معاملہ ایک صفت میں محصور ہو جاتا ہے، جبکہ حقیقت حقیقتاً اِس حصار کا انکار کرتی ہے۔ یہ اُس کے لیے نصیحت نہیں جس کے پاس عقل ہے، اور یہ اعتقادات والے لوگ ہیں، ان میں سے بعض بعض کا انکار کرتے ہیں، اور بعض بعض پر لعنت کرتے ہیں ﴿اور اِن کا کوئی مدد گار نہیں﴾ (آل عمران: 22) کیونکہ ایک اعتقادی خدا کا دوسرے اعتقادی خدا پر کوئی زور نہیں۔ اعتقاد رکھنے والا تو اپنے خدا کا – یعنی اس معاملے کا جو وہ اپنے خدا کے بارے میں درست سمجھتا ہے – دفاع اور اس کی مدد کرتا ہے، لیکن اُس کے اعتقاد میں جو خدا ہے وہ اُس کی مدد نہیں کرتا؛ اِسی لیے تو اپنے مخالف کے اعتقاد میں اِس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور نہ ہی اُس مخالف کی مدد اُس کے خدا سے ہوتی ہے جو اُس کے اعتقاد میں ہے ﴿ان کا کوئی مدد گار نہیں﴾ پس حق نے اعتقادی خداؤں سے مدد کی نفی کی، کہ ہر اعتقاد رکھنے والا منفرد اور علیحدہ ہے۔ جبکہ جس کی مدد کی جائے وہ بھی مجموع ہے اور مدد کرنے والا بھی مجموع ہے۔

فصوص الحكم جديد ایڈیشن 2024

ابرار احمد شاہی

حقیقی خدا اور اعتقادی خدا کا فرق