Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

کیا شیخ اکبر حلول و اتحاد کے قائل ہیں

حلول و اتحاد کا الزام

ابرار احمد شاہی

4/4/20241 min read

مقدمہ
––––––––––––––––––
اگر آپ حقائق سے لا علم ہیں اور آپ کے نزدیک علم اوراق پر لکھے وہ الفاظ ہیں جن کو سمجھنے کے لیے کتب لغت سب سے اہم ٹول ہے۔ تو ایسے علم اور ایسے عالم کو حقیقت کی دنیا میں محجوب کہا جاتا ہے۔

یعنی ایسا شخص جس پر حقائق ویسے نہیں کھلے جیسا کہ وہ در حقیقت ہیں۔ اس دنیا میں 99 فیصد لوگ جو خود کو عالم کہتے ہیں اسی تعریف میں آتے ہیں۔

اب جو ایک فیصد باقی بچے یہ وہ لوگ ہیں جن پر حقائق اس طرح سے عیاں ہوتے ہیں جیسے وہ در حقیقت ہیں۔ وہ ان حقائق کی فہم پانے کے لیے لکھے گئے اوراق کے محتاج نہیں ہوتے کیونکہ ان لوگوں کے پاس علم اس العلیم کی طرف سے آتا ہے جو کہتا ہے:
وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎﴿٦٥﴾ اور ہم نے انہیں اپنی طرف سے علم دیا۔ جس علم کے لیے نہ الفاظ درکار تھے اور نہ ان الفاظ کو سمجھنے کے لیے کتب لغت۔

جواب
––––––––––––––––––
اس مقدمے کے بعد عرض ہے:

جب اہل ظاہر (یہاں مراد یہی لوگ ہیں جو الفاظ کو علم سمجھتے ہیں) کے سامنے کوئی باطنی یا الہامی کلام آتا ہے، چاہے قرآن ہو، حدیث ہو، یا کسی صوفی کی وہ بات ہو جو اس تک الہام یا القا کے راستے سے آئی۔ تو یہ لوگ اپنی محدود فہم کے مطابق اپنی محدود اصطلاحات میں اپنی محدود کتب لغت سے اس کا معنی متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ظاہر پرست ہونے کی جہت سے یہ اس کے حقیقی معنی متعین نہیں کر پاتے یوں جس غلط معنی تک پہنچتے ہیں اس معنی کو ہی اس مؤلف کا حقیقی معنی سمجھ کر اس مؤلف کی تکفیر شروع کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو ۱۰۰ فیصد یقین ہوتا ہے کہ جو معنی انہیں سمجھ آیا وہی اس الہامی کتاب کی حقیقی مراد ہے۔ یوں اپنی تئییں یہ نیکی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہی ہوتی ہے کہ اگر اس الہامی یا اشاری کلام کے مؤلف سے اگر اس کی مراد پوچھ لی جائے تو وہ بھی اس معنی کی تکفیر ہی کرے گا جو یہ سمجھے۔ کیونکہ یہ اس کی مراد ہی نہیں اور نہ وہ اپنے کلام میں یہ الفاظ ان معانی کے بیان کے لیے لایا۔

اب اس خاص مقام کے لیے عرض ہے: اگر شیخ اکبر محیی الدین ابن العربی سے یہ پوچھا جائے کہ جو شخص حلول یا اتحاد کی بات کرتا ہو تو اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

تو آپ کیا سمجھتے ہیں شیخ کا جواب کیا ہونا چاہیے؟

ظاہر پرستوں کے مطابق تو شیخ اکبر کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ خالق اور مخلوق رب اور مربوب الہ اور عبد میں کوئی فرق نہیں اور یہ ایک ہی ہیں۔ اور جو ان میں فرق کرے وہ کافر ہے۔

لیکن تعجب والی بات یہ ہے کہ شیخ کے اپنے کلام میں ہی اس کے الٹ فرماتے ہیں:

اپنی کتاب روح القدس فی مناصحة النفس لکھتے ہیں:
وكذلك ذمّي للصوفية إنما أذم الصنف الذي ذكرت، فإنّ الحلولية والإباحية وغيرهم مِن هذا الطريق ظهروا، وبظاهره اتصفوا؛ فهم قرناء الشيطان وحُلفاء الخسران. نوّر الله بصائرنا وبصائرهم، وأصلح سرائرنا وسرائرهم، وأوقفهم على عيوبهم لعلهم يرجعون.
بیشک میں صوفیہ کی بھی مذمت کرتا ہوں، کیونکہ انہی میں حلولیہ، اباحیہ اور دیگر کا ظہور ہوا انہوں نے طریقت کے ظاہر کو اپنایا (اور اس کے باطن سے عاری رہے) یہ شیطان کے مصاحب اور حسارے کے حلیف ہیں۔

اسی طرح فتوحات مکیہ میں اہل حلول کی بات کا رد اس طرح سے کرتے ہیں:

(الوصل الثالث) في الحب الطبيعي وهو نوعان طبيعي وعنصري ونسينا أن تذكر غاية الحب الروحاني فلنذكره في الحب الطبيعي لتعلقه بالصورة الطبيعية فغايته الاتحاد وهو أن تصير ذات المحبوب عين ذات المحب وذات المحب عين ذات المحبوب وهو الذي تشير إليه الحلولية ولا علم لها بصورة الأمر

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ محبوب کی ذات کا عین ہی محب کی ذات کا عین ہے تو وہ اہل انحاد و حلول ہیں لیکن انہیں حقیقت کا علم نہیں۔

شیخ نے حلول کی بات کرنے والے کو جاہل قرار دیا ہے کیونکہ وہ اصل بات نہیں سمجھا اور اس کی ناقص فہم نے اسے حلول ہی سمجھایا

ومن قال بحلوله في الصور فذلك جاهل بالأمرين جميعا بل الحق إن الحق عين الصور فإنه لا يحويه ظرف ولا تغيبه صورة وإنما غيبه الجهل به من الجاهل فهو يراه ولا يعلم أنه مطلوبه فقال له الرسول صلى الله عليه وسلم اعبد الله كأنك تراه

(فتوحات مکیہ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پانی میں نمک حل ہو گیا اس کے لیے دو موجود اشیا درکار ہیں ایک پانی اور دوسرا نمک۔ اب اس مثال کو خالق پر ڈالیں تو خالق موجود ہے لیکن مخلوق معدوم ہے لہذا کس طرح ایک معدوم چیز دوسری موجود چیز میں حل ہو گی اس حیثیت میں حلول اور اتحاد دونوں مثالیں غلط ہیں۔ اور یہی اہل اللہ کے محققین کا عقیدہ ہے۔

کیا شیخ اکبر حلول و اتحاد کے قائل ہیں؟