Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-

مخلوقات کا اسمائے الہیہ سے مکالمہ

اور اپنی ایجاد کا مطالبہ

ابرار احمد شاہی

12/12/20231 min read

ممکنات یعنی مخلوقات کا اسمائے الہیہ سے مکالمہ اور ان کی ایجاد کا معاملہ

سو جب وہ (ممکنات) اسم القادر کے پاس التجا کی غرض سے پہنچیں تو القادر بولا: میں تو اسم المرید کے ماتحت ہوں، میں تو اُس کی مرضی کے بغیر تم میں سے کسی عین کو ایجاد نہیں کر سکتا، اور کوئی ممکن مجھے خود سے یہ اختیار بھی نہیں دیتا، ہاں جب تک کہ اُس کے رب کی طرف سے امر والا حکم نہ آ جائے، سو جب وہ (یعنی رب) اُسے تکوین (یعنی وجود بخشنے) کا حکم دیتا ہے اُسے “کن” کہتا ہے تو تب جا کر ممکن مجھے اپنے نفس تک رسائی دیتا ہے اور تب میں اسے ایجاد کرنےسے تعلق جوڑتا ہوں اور اُسی لمحے اُسے ایجاد کر دیتا ہوں۔ سو تم سب (ممکنات) اسم المرید کے پاس جاؤ، ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے تمہارے لیے جانب وجود جانب عدم سے مخصوص کرے۔ پھر میں “الآمر” اور “المتکلم” مل کر تمہیں وجود بخشیں گے۔

وہ (ممکنات) یہ التجا لے کر اسم المرید کے پاس پہنچیں، اُس سے بولیں: ہم نے اسم القادر سے اپنی اعیان کی ایجاد کا سوال کیا، تو اُس نے بتایا کہ یہ معاملہ آپ کے سپرد ہے، اب آپ کی کیا رائے ہے؟ المرید بولا: القادر نے سچ کہا، لیکن ابھی مجھے یہ خبر نہیں کہ تمہارے بارے میں اسم العالِم کا کیا حکم ہے، کیا اس کے سابق علم میں تمہاری ایجاد ہے کہ ہم ایسا کریں یا سابق علم میں ایسا نہیں؟ کیونکہ میں اسم العالم کے ماتحت ہوں، لہذا تم سب اُس کے پاس جاؤ اور اسی کے سامنے یہ مسئلہ اٹھاؤ۔

پھر وہ سب (ممکنات) اسم العالِم کے پاس گئیں اور انہیں اسم المرید کی بات بتائی، العالم بولا: المرید نے سچ کہا، ہاں میرے سابق علم میں تمہاری ایجاد ہے، تاہم ادب ملحوظ خاطر رکھنا اولی ہے، کیونکہ ہم تمام اسما کی ایک نگران حاضرت بھی ہے، جو کہ “اسم اللہ” ہے۔ لہذا تم سب اس وقت آؤ جب ہم اسم اللہ کے پاس حاضر ہوں؛کیونکہ وہ حاضرت جمع ہے۔

پھر وہ تمام اسما اسم اللہ کی حاضرت میں جمع ہوئے، اسم اللہ بولا: کیا بات ہے؟ انہوں نے ساری بات بتائی۔ بولا: میں تمہارے حقائق کا جامع اسم ہوں، اور میں مسمی (یعنی ذات) پر دلیل ہوں اور وہ (مسمی) تمام صفاتِ کمال اور تنزیہ کی حامل مقدس ذات ہے۔ سو تم سب یہیں رکو تاکہ میں اپنے مدلول (ذات حق) کے پاس جاؤں۔ پھر اسم اللہ اپنے مدلول (یعنی ذات حق) کے سامنے پیش ہوا، اور اسے ممکنات کی بات اور اسما کی گفتگو سب کچھ بتایا۔ ارشاد ہوا: باہر جا اور ہر اسم سے یہ کہہ کہ وہ ممکنات میں اپنی حقیقت کے تقاضے کے مطابق اپنا تعلق بنائے،بیشک میں اپنی ذات کے لیے اپنی ذات میں واحد ہوں، اور یہ ممکنات میرے مرتبے کی طالب ہیں اور میرا مرتبہ ان کا طالب ہے۔ یہ سارے اسمائے الہیہ تو مرتبے کے لیے ہیں، میرے لیے نہیں۔ ماسوائے خاص اسم “الواحد”؛ کہ وہ مجھ سے مخصوص اسم ہے، کہ کسی بھی رخ سے اُس کی حقیقت میں میرا کوئی شریک نہیں: نہ اسما میں سے، نہ مراتب میں سے اور نہ ہی ممکنات میں سے۔

لہذا اسم اللہ باہر آیا اور اُس کے ساتھ اسم المتکلم تھا جو ممکنات اور اسما کے سامنے اس کی ترجمانی کر رہا تھا، اسم اللہ نے انہیں وہ سب بتایا جو اُسے مسمی (یعنی ذات) نے کہا تھا۔ لہذا “العالم” “المرید” “القائل” اور “القادر” اپنے کام میں لگ گئے اور ممکنات میں سے پہلے ممکن کا ظہور “المرید” کے اختصاص اور “العالم” کے حکم سے ہوا۔ (مخطوط : السفر - 5، ص 14)