Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-
ذبیح اللہ کون؟
ابن العربی کے نزدیک درست موقف
ابرار احمد شاہی
3/13/20241 min read
ذبیح اللہ کون؟
شیخ اکبر کے نزدیک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں۔ جس کا واضح ثبوت آپ کی کتاب الاسفار کے سفر ہدایت یعنی سفر ابراہیم میں ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد کسی شک کی گنجائش تو نہیں رہتی لیکن فصوص الحکم کے اِس مقام پر اکثر شارحین تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر شیخ کی مراد نہ سمجھ پائے اور فقط فص اسحاق میں قربانی کے ذکر سے انہوں نے متعدد قیاس آرئیاں کر لیں۔ میں بھی پہلے انہی شارحین کی تشریحات پڑھ کر تذبذب کا شکار ہو گیا تھا، اور سوال یہ تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے شیخ اکبر ایک کتاب میں اسماعیل کو ذبیح اللہ قرار دیں اور دوسری کتاب میں اسحاق کو ذبیح اللہ قرار دیں۔ حالانکہ آپ نے ان دونوں کتب میں صراحتا کسی کا نام نہیں لیا بلکہ مبہم اشارات سے ہی کام لیا ہے، لیکن کتاب الاسفار میں عبارت بھی واضح ہے اور اشارہ بھی آسانی سے سمجھ آتا ہے۔ شیخ اکبر لکھتے ہیں: "فجمع له بين الفداء وبين البدل مع بقاء المبدَل منه" ابراہیم کو “فدا” (یعنی مینڈھا) اور “بدل” (یعنی اسحاق ) بھی دے دئیے گئے اور “مبدل منہ” (یعنی اسماعیل ) بھی باقی رکھے گئے۔ یہ عبارت بذات خود بتا رہی کہ قربانی کس کی ہوئی اور بدلے میں کون وہب ہوا۔
پھر میں نے اپنے شیخ احمد محمد علی سے اس حوالے سے امداد چاہی، آپ شیخ اکبر کے زیر تربیت اور ان سے روحانی رابطے میں رہتے ہیں۔ اور میں نے آپ کی بیعت بھی اسی لیے کی تھی کہ شیخ اکبر کا جو فیض ہم تک براہ راست نہیں پہنچ پا رہا وہ آپ کے واسطے سے ہم تک پہنچیں اور ہم آپ کے بیان کردہ علوم الہی کو سمجھ سکیں۔ میں نے آپ سے سوال کیا: کتاب الاسفار میں تو بات واضح ہے کہ اسماعیل ہی ذبیح اللہ ہیں لیکن شیخ نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں قربانی کا ذکر اور خواب کا معاملہ فص اسحاقی میں نقل کیا ہے اس کی کیا حکمت ہے؟
اس پر شیخ احمد محمد علی نے جواب دیا: دونوں کتب میں شیخ اکبر نے اسی معنی کی جانب اشارہ کیا کہ اسماعیل ہی ذبیح اللہ ہیں، جبکہ فص اسحاقی میں اِس کا ذکر اس لیے ہے کہ اسحاق مسئلہ ذبح کا نتیجہ بن کر ظاہر ہوئے ہیں ، وہ معاملہ جو اسماعیل کے ساتھ پیش آیا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسحاق ہی ذبیح اللہ بن گئے ہیں۔ شیخ احمد محمد علی فرماتے ہیں: میں نے شیخ اکبر سے صراحتا پوچھا ہے کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ اور انہوں نے مجھے یہی بتایا ہے کہ وہ اسماعیل ہیں۔ اور اگر شیخ کی نصوص کو پڑھا جائے تو اس کی عمومی فہم بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔
پھر شیخ احمد محمد علی نے مجھے اس پر دلیل بتائی، کہتے ہیں: فص اسحاق کا عنوان کیا ہے؟ "فص حكمة حقية في كلمة اسحاقية" یہ اللہ تعالی کے اس قول کی جانب اشارہ ہے: ﴿هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا﴾ یہ میرے اس پہلے خواب کی تعبیر ہے کہ میرے رب نے اسے حق کر دیا۔ (یوسف: 100) اسی لیے یہ حکمت حقی کے نام سے موسوم ہوئی کہ اسحاق کی بشارت اس خواب والے واقعے کے بعد ملی جس میں ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کیا ۔ اسی راز کی بدولت حکمتِ حقی اسحاق سے منسوب ہوئی ، کہ آپ اس خواب کے بعد حقی بشارت کے طور پر عطا ہوئے۔
لیکن اکثر شارحین فصوص اس مقام پر متذبذب دکھائی دیتے ہیں اور بہت کم اصل بات تک پہنچ پائے۔ عبد الباقی مفتاح اپنی کتاب "المفاتيح الوجودية والقرآنية لكتاب فصوص الحكم لإبن العربي " میں لکھتے ہیں: “شیخ اکبر نے اپنی کتاب الاسفار میں یہ صراحتا بیا ن کر دیا ہے کہ اسماعیل ہی ذبیح اللہ ہیں، اور اسی لیے آپ نے فتوحات مکیہ کے باب نمبر 14 میں آپ کو المنحور کے نام سے یادکیا ہے جبکہ اسحاق کو الماحق کے نام سے پکارا ہے۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فصوص میں ذبیح اللہ اسحاق ہوں؟
اس سوال کا جواب آپ یوں دیتے ہیں: شیخ اکبر نے فص اسحاق میں اسحاق کو ذبیح اللہ قرار نہیں دیا، اور جب بھی ذبیح کا لفظ لایا تو "ولدہ" کا لفظ لکھا، کیونکہ یہاں اسم الذبیح کا تعین ضروری نہیں بلکہ عالم مثال اور اسرار خواب کا بیان ضروری ہے۔ ” اس کے بعد آپ نے دو پیراگراف کی تفصیل درج کی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ خواب تعبیر کا متقاضی ہوتا ہے اور عالم خواب میں ایک شکل کوئی دوسری شکل اختیار کرتی ہے ۔ پھر آپ نے ابراہیم کے دونوں بیٹوں کو ہی ایک قرار دے دیا اور یہ لکھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذبح کا ارادہ پہلے ظاہری اسماعیل میں جاری ہوا پھر آپ کے بھائی اسحاق میں سرایت کر گیاکہ دونوں ہی صبر و رضا تسلیم و فرمانبرداری میں وراثت ابراہیمی کے وارث ہیں الی آخرہ۔ یعنی آپ نے بھی کوئی حتمی بات نہ کی۔ لیکن کم از کم اس غلط فہمی کا ازالہ کیا کہ صرف فص اسحاقی میں واقعہ ذبح کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ یعنی اسحاق ذبیح اللہ ہیں۔ (ص 113، مفاتیح فصوص الحکم از عبد الباقی مفتاح طبع شدہ دار البراق بیروت)
اب ہم اس مسئلے میں مختلف شارحین کے نتائج پیش کرتے ہیں۔
1- صدر الدین قونوی، شیخ الماہمی اور یعقوب خان آفندی نے اپنی شروحات میں اسماعیل یا اسحاق میں سے کسی کا نام صراحتا بیان نہیں کیا۔
2- عفیف الدین تلمسانی نے ذبح میں اسحاق کا نام لکھا ہے۔
3- مؤید الدین الجندی نے اپنی شرح فصوص میں عنوان "فص حكمة حقية في كلمة اسحاقية" کے تحت اسماعیل کو ہی ذبیح اللہ لکھا ہے ۔
4- عبد الرزاق قاشانی اس فص کے عنوان حکمتِ حقی کی شرح یوں کرتے ہیں: بیشک کلمہ اسحاقیہ کو حکمت حقی سے مخصوص اس لیے کیا گیا کیونکہ آپ کے حق میں آپ کے والد کا خواب متحقق ہوا۔ اسی فص کے اشعار میں خلیفہ الرحمن کی شرح میں آپ نے اسحاق کا نام ہی لکھا ہے اور اسے شیخ کا کشف قرار دیا ہے جبکہ شیخ اس سے بری ہیں۔ اسی طرح اس فص میں جس جگہ شیخ نے ابن ابراہیم کا لفظ استعمال کیا آپ اسے اسحاق لکھتے جا رہے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کتاب الاسفار میں شیخ کا نکتہ نظر نہیں پڑھا وگرنہ اتنی صراحت سے لفظ اسحاق نہ لکھتے۔ اور آپ ہی وہ پہلے شارح فصوص ہیں جنہوں نے اتنی صراحت سے حضرت اسحاق کا ذبیح اللہ ہونا شیخ اکبر سے منسوب کرنا شروع کیا۔
5- داؤد القیصری اپنی شرح فصوص میں لکھتے ہیں: ظاہر قرآن تو یہی بتاتا ہے کہ یہ فدیہ اسماعیل سے تھا، اور ابراہیم نے اسماعیل کو ہی ذبح کرتے دیکھا، یہی جمہور مفسرین کی رائے ہے، لیکن بعض کی رائے یہ بھی ہے کہ قربانی اسحاق کی ہوئی۔ آپ مزید لکھتے ہیں: اسحاق کو ذبیح اللہ قرار دینے میں شیخ اکبر معذور ہیں کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں کچھ بھی خود سے نہیں لکھا بلکہ یہ کتاب نبی کریم کی ہدایات پر لکھی گئی ہے۔ لیکن میرے نزدیک داود القیصری کی یہ شرح اور یہ قول معذور ہے کیونکہ انہوں نے اپنے شیخ عبد الررزاق قاشانی کی اتباع میں یہ سب لکھا۔ اسی طرح یہ بھی عبد الرزاق قاشانی کی طرح اشعار میں خلیفہ الرحمن کو حضرت اسحاق قرار دے رہے۔لہذا میری رائے میں یہ تحقیق نہیں بلکہ تقلید ہے۔
6- مصطفی بالی آفندی لکھتے ہیں کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں، اور بعض کی رائے میں حضرت اسحاق اِس منصب پر فائز ہوئے، بالی آفندی وجہ بیان کرتے ہیں کہ شیخ نے اپنے کشف کے مطابق حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دیا۔
7- مولانا جامی اور محب اللہ الہ بادی نے اپنی اپنی فصوص الحکم کی شرح میں بھی قیصری کی بات ہی دہرائی ہے کہ سلف الصالحین کی ایک بڑی جماعت اور اکثر یہود کے نزدیک حضرت اسحاق ذبیح اللہ ہیں لیکن اکثر مسلمانوں کے نزدیک یہ حضرت اسماعیل ہیں اور شیخ اس بارے میں معذور ہیں کیونکہ وہ مامور ہیں۔
8- شیخ عبد الغنی النابلسی اس فص کے عنوان کی شرح میں لکھتے ہیں: حکمہ اسحاق کو حقی اسی لیے کہا گیا کہ حق اللہ کے اسما میں سے ایک اسم ہے جو کہ باطل کے الٹ ہے، اور یہ حکمت حق سے اس لیے مخصوص کی گئی کیونکہ آپ کی درست قول کے مطابق ذبیح اللہ ہیں۔ پھر اس فص میں جہاں جہاں شیخ اکبر نے ابن ابراہیم کا ذکر کیا آپ نے اس کی شرح اسم اسحاق سے کی۔ پھر آگے چل کر آپ قرآن و حدیث میں ذبیح اللہ کے اختلاف کا بھی ذکر کرتے ہیں اور شیخ اکبر کے کھاتے میں حضرت اسحاق کا نام بغیر کسی دلیل کےڈال رہے ہیں، اِس پر حیرت ہے۔
9- عبد اللہ البوسنوی نے اپنی شرح فصوص میں ابن ابراہیم کے اشارے کو حضرت اسحاق سے مقید کیا ہے، اور ایسا ایک سے زائد مقامات پر کیا ہے۔
10- محمود محمود غراب نے اپنی شرح فصوص میں شیخ اکبر کے حوالے سے یہی لکھا ہے کہ ان کے نزدیک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہیں اس دعوے کی دلیل انہوں نے کتاب الاسفار کے متن سے پیش کی ہے یہ وہ دلیل ہے جو ہر صاحب فہم اس مقام پر شیخ کے دفاع میں پیش کرتا ہے۔
11- فارسی شارحین کی بات کریں تو وہ زیادہ تر عربی شارحین سے ہی نقل کرتے ہیں لہذا اکثر نے عربی شارحین کی اتباع میں حضرت اسحاق کو ذبیح اللہ قرار دیا۔
12- اردو شارحین کی بات کریں تو ذہین شاہ تاجی نے عربی شارحین کی نقل میں لکھا ہے کہ شیخ کے نزدیک حضرت اسحاق ہی ذبیح اللہ ہیں جبکہ جہمور علمائے دین کے نزدیک وہ اسماعیل ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ذہین شاہ تاجی بھی شیخ اکبر کے اصل مذہب پر مطلع نہ ہو سکے اور فقط تقلید پر ہی بھروسا کیا، ان کی زیادہ شرح عربی شروحات کا ترجمہ ہی ہے۔
ہماری بیان کردہ اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہی ہے کہ جو لوگ شارحین فصوص کو حرف آخر سمجھتے ہیں ان کی آنکھیں کھلنی چاہییں کیونکہ یہ معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ فصوص الحکم ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کے رمز کو کھولنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اسی لیے شارحین میں بھی صریح اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ لہذا کسی شارح کو دوسرے پر ترجیح دینا دلیل سے ہی ہونا چاہیے نہ کہ اپنی خواہش سے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیخ کی مراد تک پہنچائے اور ان شارحین کے وہم و گمان سے بچائے جو اپنی خواہش سے شیخ کی مراد کے الٹ ان کے کلام کی شرح کر رہے۔ آمین یارب العالمین۔
ابرار احمد شاہی
صدر ابن العربی فاونڈیشن
اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ شیخ اکبر محیی الدین ابن العربی کے نزدیک ذبیح اللہ کون ہیں؟ حضرت اسماعیل یا پھر حضرت اسحاق ؟ اس حوالے سے شیخ کی کتب خاص کر کتاب الاسفار اور فصوص الحکم پر بات کی جائے گی۔ اور متعدد شارحین کا نقطہ نظر سامنے رکھ کر بتایا جائے گا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے۔ اور جو لوگ اس حوالے سے شیخ اکبر پر طعن کرتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں
Explore
abrarshahi@yahoo.com
Discover
Connect with our collection
+92 334 5463996
Chaklala, Rawalpindi