Official website of Abrar Ahmed Shahi | Free delivery for order over Rs 999/-
USD 600/-
Project Proposal for Ibn al-Arabi’s “Kitab al-Tajalliyat”
In the year 2024, we intend to work on the following book by Shaykh al-Akbar Muhyiddin Ibn al-Arabi:
“Kitab al-Tajalliyat”
This unique work by Shaykh al-Arabi delves into various aspects of divine manifestations (tajalliyat). It provides insights into different forms of divine self-disclosure and recounts the circumstances surrounding these revelations. Our objective for this project includes comprehensive research on the Arabic text, a fluent Urdu translation, and an exploration of Isma’il ibn Suhdakin’s commentary. By doing so, we aim to unlock a hidden treasure of knowledge and facts for Urdu readers.
To support this endeavor, we require funding of up to $3500. So far, we have secured $1500 from a generous donor, and we have already initiated systematic work on the book. Our journey of compiling and promoting Shaykh’s teachings must continue, and we pray that Allah grants us a deep understanding of these sciences. Ameen, O Lord of the Worlds.
For those who wish to connect regarding this matter, please feel free to reach out directly to me.
Abrar Ahmed Shahi
President, Ibn al-Arabi Foundation
FUNDS REQUIRED
السلام علیکم سن 2024 میں شیخ اکبر اکبر محیی الدین ابن العربی کی مندرجہ ذیل کتب پر کام کا ارادہ ہے۔
کتاب التجلیات
یہ کلام شیخ میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے، جس میں شیخ نے تجلیات الہیہ کی متعدد اقسام اور ان میں پیش آئے احوال کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے ہمارا ارادہ اس کے مکمل عربی متن کی تحقیق، سلیس اردو ترجمہ اور اسماعیل ابن سودکین کی شرح سے استفادہ ہے تاکہ اردو قارئین کے لیے یہ بھی حقائق و معرفت کا یہ مستور خزانہ کھولا جائے۔
اس پراجکٹ کے لیے ہمیں 3500 ڈالر تک کی فنڈنگ درکار ہے جس میں سے اب تک ہم 1500 ڈالر کی رقم ایک معزز ڈونر سے حاصل کر چکے ہیں۔ اور ہم نے اس کتاب پر باقاعدہ کام بھی شروع کر دیا ہے۔ علوم شیخ کی تدوین اور ترویج کا یہ سفر جاری رہنا چاہیے، اللہ ہمیں ان علوم کی اصل فہم عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
اس سلسلے میں جو احباب رابطہ کرنا چاہیں وہ براہ راست مجھ سے رابطہ کریں
ابرار احمد شاہی
صدر ابن العربی فاونڈیشن
ہمیں 3500 ڈالر کے مساوری رقم درکار ہے
PRK 150,000/-
کـتاب التجليات
تجلي الصدق
من كان سلوكه بالحق، ووصوله إلى الحق، ورجوعه من الحق بالحق، فنظــر الخلق من كونهم حقًــا بالحقّ، واستـمداده من عـرفانيات الحق، لم يخط له نظـٌر فلم يخط له حكـم ، فلم يجر عليه لسان باطلٍ. فكان خلقا في صورة حقٍ ، بنطقِ حقٍ وعبارة خلقٍ.
تجلي الخاطـر
الخواطـر الأُول ربَّانية كلها، لا يخطئ القائل بها أصـلا، غير أن العوارض تعرض لها في الوقت الثاني من وقت إيجادها إلى ما دونه من الأوقات. فمن فاته معرفة الخواطر الأُول وليس عنده تصفية خلقية، فلا رائحة له من عــلم الغيوب، ولا تعتمد على حديث النفس فإنه أماني.
★★★★★
★★★★★
تجلي وصیت
میں تجھے اس تجلی میں علم کی وصیت کرتا ہوں اور تو احوال کی لذات سے خود کو بچا؛ کہ یہ مہلک زہر اور مانع حجاب ہیں۔ بیشک علم تجھے اس کا بندہ بناتا ہے اور ہم سے یہی مطلوب ہے، یہ تجھے اس کے حضور ٹھہراتا ہے، جبکہ حال تجھے تیرے ہم جنسوں پر آقائیت سکھاتا ہے، اور حال کا قہر انہیں تیرا غلام بناتا ہے، اور تو ربوبیت کی صفات سے ان پر مسلط ہو جاتا ہے، اس وقت تیرا اس سے کیا تعلق جس کے لیے تو تخلیق ہوا۔ پس علم ہی سب سے شرف والا مقام ہے یہ تجھ سے نہ چھوٹے۔
تجلی: کبھی یہ کبھی وہ
جب حق نے تجھے خود سے جمع کیا تو تجھے تجھ سے جدا کیا، پس تو فعال اور وجود میں ظاہری اثر والا ہوا۔ اور جب تجھے تجھ سے جمع کیا تو خود سے جدا کیا ، تو تُو مقام عبودیت میں ٹھہرا، یہ ولایت حضوری اور بساط کا مقام ہے۔ جبکہ وہ خلافت اور اغیار میں غلبے کا مقام ہے۔ اب تو جو جمع چاہتا ہے وہ چن لے، تیری تجھ سے جمع اعلی ہے کہ تیرا مشہود ظاہر ہے اور تیری اُس سے جمع تیرا اُس سے ظاہر ہونا اور خود سے اوجھل ہونا ہے۔ یہ غیبیت وصل و اتصال کی وہ انتہا ہے جو اس عالی و اقدس جناب اور اس انسانی لطیفے کے لائق ہے ﴿جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے﴾ وہ آپ کی نہیں اللہ کی بیعت کر رہے، اس پر غور کر۔
★★★★★
★★★★★
شرح ابن سودکین (تجلی وصیت)
میں نے اپنے شیخ کو اس تجلی کی شرح میں جو فرماتے سنا اس کا مفہوم یہ ہے:
بعض کا کہنا ہے: جب جب تو نے اُس سے لذت پائی تو تو ٹھہر گیا۔ اور بعض کا کہنا ہے: علم تجھے جہل سے جدا کرتا ہے، لہذا بچ کہ کہیں یہ تجھے اللہ سے جدا نہ کر دے۔ اور بعض کا کہنا ہے: علم باللہ کا مطلب یہی ہے کہ تجھے اُس (ذات) کا علم نہیں۔
اور شیخ کا یہ کہنا: احوال کی لذات سے خود کو بچا۔ تو یہ ا حوال یا تو تجھے تیرے ہم جنسوں پر آقائیت بخشتے ہیں، کہ جس ربانی وصف سے تو انہیں زیر کرتا ہے وہ تیرے سامنے جھک جاتے ہیں، یا پھر تو اپنی ذات سے لذت پاتا ہے۔ اور یہ لذت کسی مناسبت رکھنے والے موافق سے ہوتی ہے جبکہ حق اور خلق میں کسی رخ سے کوئی مناسبت نہیں، اسی لیے انس باللہ بھی درست نہیں، جس نے یہ کہا تو اس نے اس سے تجاوز کیا۔
اللہ آپ کی تائید کرے شیخ سے کہا گیا: ہمیں تو علوم میں بھی لذت ملتی ہے۔ فرمایا: یہ حال کی لذت ہے، کیونکہ علم سے حال آتا ہے اور حال لذت دیتا ہے۔ علم کے چند نتائج ہیں جن میں سے بعض دیگر بعض سے اولی ہیں۔ علم یا تو تجھے اس سبحانہ میں فنا کرتا ہے اور مشاہدے کے ساتھ اصلاً لذت نہیں ہوتی یا پھر یہ تجھے تیرے لیے باقی رکھتا ہے۔ یہ تجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو ربوبیت کی شرائط کو ادا کر اور اس میں اصلاً کوئی طبیعی لذت نہیں۔ یہ جان کہ حق نے تجھے خاص اپنے لیے تخلیق کیا، پس علم ہمیشہ تجھے اسی سبحانہ کی طرف لوٹاتا ہے، جبکہ حال تجھے مخلوقات کی جانب لے کر جاتا ہے، یوں حال میں تو اس سے دو رہو جاتا ہے جس کے لیے تیری تخلیق ہوئی۔
یہ بھی جان کہ جب علم میں لذت ملی اور تو نے اسے آفت جانا تو یہ حال ہے نہ کہ علم۔ تجھے یہ فرق سمجھنا چاہیے۔ اور یہ بھی جان کہ صاحب لذت لذت سے محجوب ہوتا ہے۔ اس میں اصل یہ ہے کہ تکلیف لذت کے منافی ہے۔ اور یہ ٹھکانہ یعنی ٹھکانۂ عبودیت بھی لذت کے منافی ہے۔ اب یا تو حق میرا مشہود ہے ، یا ایسا نہیں۔ اگر وہ میرا مشہود ہے تو یہ فنا ہے، اور اگر وہ میرا مشہود نہیں تو علم مشہود ہے۔ اور علم عبودیت کے لوازمات میں سے ہے، وہ عبودیت جس کا تقاضا اس ٹھکانے نے تکلیف سے کیا۔
یہ بھی جان اور اسے متحقق کر کہ سانسیں محفوظ ہیں اور اگر انسان اپنی ساری عمر کی سانسوں میں سے ایک سانس بھی کھو دیتا ہے تو اس ایک کا کھونا اُس سب سے بڑھ کر ہے جو اس نے اپنی سانسوں میں سے پایا۔ کیونکہ کھونے والا سانس اِس سب پر مشتمل ہوتا ہے جو ہو گزرا اور اس سے بڑھ کر بھی اور حقیقت میں یہ بھی اس کی ذات میں ہے۔ محققین اس کھو جانے والے سانس کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں ، کیا یہ آخرت میں لوٹے گایا نہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے کرم سے لوٹے گا، اور اس کے لوٹنے کی راہ اللہ ہی جانتا ہے جسے وہ لوٹانا چاہے۔
بیشک انسان کی تخلیق ہی ایسے ہوئی کہ وہ سانسوں کے ساتھ ترقی کرتا ہے۔ سو جب اس نے کوئی لذت طلب کی، یہ حال سے ہو یا پھر مقام سے، اور پھر یہ اسے دی گئی، تو اُس نے دنیا اور آخرت میں اِس(ترقی) کی حقیقت کھو دی۔ اور چونکہ حق سبحانہ اپنے بندے کو خود سے ہی بندے کی طلب کے بغیر لذت دیتا ہے تو حق سبحانہ اس پر اس لذت کے وقت میں سانسوں کا کھونا لازم کرتا ہے۔ السیاری کا کہنا ہے: “حق کے مشاہدے میں کوئی لذت نہیں۔” اور ایک شخص کا کہنا ہے: محبت کرنے والے کا گناہ اِس کا باقی رہنا ہے۔ اور کسی دوسرے کا کہنا ہے: محبت کرنے والے کی نیکی اِس کا باقی رہنا ہے۔ وہ اس لیے کہ محبت کا تقاضا فنا ہے، جبکہ محبوب کی قوت اِس کے بقا کا تقاضا کرتی ہے۔ پس محب کی بقا محبوب کی قوت سے ہے۔ اس صورت میں محب کی بقا نیکی ہے۔ اور دوسری صورت – جو کہ ابتداً معروف ہے – وہ یہ کہ محبت اُس سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ خودسے فنا ہو کر اپنے محبوب میں مستغرق ہو۔
جہاں تک فنائے کلی کی بات ہے تو یہ درست نہیں، بلکہ بقا لازم ہے۔ ہاں اگر محبت کرنے والا اپنے نفس سے اپنے نفس کے لیے باقی رہا تو اسے کہا جائے گا: اگر تو حقیقت میں محبت کرنے والا ہوتا تو اپنے نفس کو چھوڑ کر اپنے محبوب میں فنا ہوتا، پس محب کی بقا لازماً اس کے محبوب میں ہونی چاہیے، اور اس کا استہلاک خاصتاً اس کے نفس میں ہونا چاہیے۔ یہ جان۔ اور اللہ ہی حق بات کہتا ہے۔
Manuscript Gallery
Explore exquisite manuscripts used in making of this new critical edition
Contact for Donations
For inquiries about Kitab al-Tajjaliyat by Ibn al-Arabi, please feel free to reach out to us through the contact information provided below.
Donate
+92 334 5463996
abrarshahi@yahoo.com
Explore
abrarshahi@yahoo.com
Discover
Connect with our collection
+92 334 5463996
Chaklala, Rawalpindi